Baland Iqbal
وقت کی آنکھ مجھے دیکھ رہی ہے۔ میرا ہر عمل اُس کی نگاہ کی زد میں ہے۔ میں جو کچھ دیکھتا ہوں، جو کچھ سوچتا ہوں اور جو کچھ کہتا ہوں۔۔۔ لمحوں میں تقسیم ہو کر وقت کی اکائی میں سمٹ جاتا ہے، مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اِس اکائی سے اپنے کسی عمل کو الگ کر سکوں، میں گزرتے لمحوں کو روک سکتا ہوں اور نہ آنے والے لمحوں کے احتساب سے بچ سکتا ہوں۔ میں چاہوں یا نہ چاہوں، میری فرد عمل مرتب ہو رہی ہے اور میرے دل میں یہ دھڑکا بیدارہے کہ تاریخ کا فیصلہ میرے حق میں کیا ہو گا؟ میں جو بیک وقت شاعر بھی ہوں اور ایک ایسا آدمی بھی جو اپنی پرچھائیوں میں بٹ چکا ہے۔اِن پرچھائیوں میں اپنی وحدت کی تلاش اکثر مجھے اپنے آپ سے نبرد آزما رکھتی ہے اور شکست وریخت کے اِس عمل میں اکثر وہ شاعر بھی ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے جو میری روح کا استعارہ ہے اور میں عرصے تک اپنے بکھرے ہوئے ریزوں کو جمع کرنے اور انہیں پھر سے جوڑنے میں سرگرداں رہتا ہوں۔ یہ عرصہ مجھ پر ایک عذاب کی طرح گزرتا ہے۔ آگ میں پھول’ سے لے کر’مٹی کا قرض’تک میں کتنی ہی بار اس روح فرسا اذیت سے گزرا ہوں اور خدا جانے ابھی کتنے کرب انگیز مراحل سے گزرنا باقی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ روح اور بدن کی اس جنگ میں میرا کیا حشر ہو گا میں پرچھائیوں میں بٹے ہوئے آدمی کے ملبے تلے دب کر رہ جاؤں گا یا اُس شاعر کو بچا لاؤں گاجو مر کر بھی زندہ رہنا چاہتا ہے جو فنا میں بھی ثبات کے خواب دیکھتا ہے اور ظہور کے نت نئے پیرائے تلاش کرتا رہتا ہے شاعری اسی معنی میں اپنے عہد کی تنقید بھی ہے کہ وہ تاریخ کے تسلسل میں عصرِ رواں کا نہ صرف محاسبہ کرتی ہے بلکہ محاکمہ بھی کرتی ہے اور یہ محاکمہ ثابت کرتا ہے کہ شاعر کااپنے زمانے سے رشتہ مجازی تھایاحقیقی، جزوی تھا یا کُلّی۔۔۔ وہ گردو پیش کی دنیا میں صرف اپنی ذات کا سفیر تھا یا اپنے عہد کا وہ ہر کارہ بھی جو گھر گھر کا پیامبر ہوتا ہے، اس نے محض آب حیات پی کر خضر کی ابدیت کے خواب دیکھے یا وہ زہر بھی پیا ہے جو اپنی دھرتی کی محبت میں ’نیل کنٹھ’ کو پینا پڑا تھا۔حیاتِ ابدی کی لالچ میں تو سکندر نے بھی خضر کو رہنما کیا تھا اور اِسّر (راکھشش) بھی وہ امرت لے بھاگے تھے جو دیوتاؤں نے سمندر کو متھ کر نکالا تھا لیکن۔۔۔ زہر وہی پیتا ہے جسے اپنی مٹی عزیز ہوتی ہے۔ حمایت علی شاعرؔ